the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ایک ابھرتی ہوئی بڑی معیشت ہے۔ آزادی کے بعد سے ملک سے غربت و جہالت کے خاتمہ کے لئے بڑی منصوبہ بند کوشیشیں کی جاتی رہیں، باوجود ان تمام تر کوششوں کے ملک کے بعض ریاستیں اور طبقات اب بھی انتہاء درجہ کی غربت کا شکار ہیں۔ ان میں بنگال کے مسلمان سرفہرست ہیں۔ مغر بی بنگال میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 27%اور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق 30%آبادی مسلمانوں کی ہے۔ مسلم اکثریتی اضلاع مرشد آباد، مالدہ اور اتردھنبج پور اور دوسرے مسلم علاقوں کا دورہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان اب بھی کئی ہزار سال قدیم طرزکی زندگی بسر کررہے ہیں، گرتے ہوئے بوسیدہ مکانات ، دیہی علاقوں میں ٹٹے اور مٹی کے گھروں اور جھوپڑیوں میں رہتے ہیں۔ آبادیوں میں میلوں کوئی لائٹ نظر نہیں آتی۔ 70%اسکولی بچے آج بھی بغیر چپل اور شرٹ کے اسکول جاتے ہیں، اسکولوں میں کوئی فرنیچر نہیں ہوتا ، کئی اسکول تو درختوں کے سایہ میں چلتے ہیں۔سیکلوں پر پھرتے با پ بیٹے بر سر عا م بغیر کر تے کے پھرتے نظر آتے ہیں۔
صاف پینے کا پانی میسر نہیں، چھوٹے چھوٹے تلابوں میں جانور اور انسان ایک سا تھ نہاتے ہیں، وہیں پر عورتیں گھر کے برتن دھوتی ہیں، تعفن بھرے پانی کا گھروں میں استعمال عام ہے۔ اسی میں بستی کی مرغیاں تیرتی رہتی ہیں، حمل و نقل و با ر بر داری کے لئے زیادہ تررکشا کا استعمال کیا جاتا ہے، اس پر صرف ایک تختہ لگا ہوا تاہے۔ یہ ہی امبولنس یہ ہی اسکول ویان اور یہ ہی مستورات ضعفوں،بچوں کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعما ل کر تے ہیں۔ جن کو موٹر سائیکل میسر ہے وہ علاقے کا امیر ترین شخص کہلاتا ہے۔ اسے سجاکر گھر میں رکھا جاتا ہے۔ تقاریب و عیدیں پر موٹر سائیکل باہر نکالی جاتی ہے۔ سڑکیں اتنی شکستہ ہوتیں ہیں کہ 20کلومیٹر کا فاصلہ ۳ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ اضلاع گا ؤں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ کی بسیں برائے نام ہیں۔ میلوں سفر کرنے پر کہیں ایک پٹرول پمپ بھی نظر نہیں آتا مسلمانوں کی گنجان آبادی کے بڑے بڑے علاقوں میں بھی ہسپتال اور دواخانے تک نہیں ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کوئی Technical Skill Development Institute نہیں ہے۔تعلیمی اداروں ، جونئیر و ڈگری کالجس برائے نام ہیں ۔ اعلی تعلیم کے لئے کلکتہ آنا پڑتا ہے۔ اسکولس میں مسلمان طلباء کا ڈراپ آوٹ
تناسب 77%ہے۔ بچہ مزدوری عام ہے، محنت مزدوری ان بچوں کا مقدر بن چکی ہے۔
بنگال ، آسام کے بعد واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی بڑا حصہ97% OBC(Other Backward Class)میں شامل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تقسیم بنگال کے بعد سے جان جوجھ کر مرکزی اور ریاستی حکام نے مغربی بنگالی مسلمانوں کو پساندگی اور انتہاء درجہ کی غربت و جہالت میں چھوڑدیا ہے، اور مسلمانوں نے بھی70سالسے افسوسناک غربت سے نکلنے کے لئے کوئی جد و جہد اور محنت و مشقت نہیں کی ہے۔ نہ اور یہاں اتنے بڑے فلاحی و رفاہی ادارے ہیں جو تعلیم، غر بت،صحت، روزگار پر تو جہ دیتے ہوں۔ اور کوئی مسلمانوں کے درمیان ترقی پسندکو ئی ایسی قیادت ابھری جو سماج میں ایک انقلابی روح پھونکے۔ جتنے بھی سیاسی قائدین ان علاقوں سے منتخب ہوکر اسمبلی اور پارلمنٹ میں نمائندگی کرتے رہے، انہیں مسلمانوں کی عمومی صورت حال سے کوئی سروکار نہیں رہا اور نہ ہی مسلمانوں کو پسماندگی سے نکالنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے۔ حکمران سیاسی جماعتوں کے ناکارہ نمائندہ بن کر رہے۔ ملک میں مسلمانوں کی بڑی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں کبھی مغربی بنگال کے مسلمانوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی اور نہ مسلمانوں کے دانشور مفکرین ، پالسی ساز ،سما جی جبد کا ر بنگالی مسلمانوں کا کلیجہ چیرنے والی غربت پر اپنی توجہ منذول کرتے ہیں۔
نوبل انعام یافتہ ماہر معا تیا ت آ مر تیہ سن کے تحقیقاتی ادارے (SNAP)pratichi institute and association نے ’’مسلمانوں کی زندگی کی حقیقت مغربی بنگال میں ‘‘ کے عنوان سے دہلا دینے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق صر ف ایک فیصد مسلمان پرائیوٹ سکٹر میں ملازمت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی دیہی علاقو ں میں 47% آبادی زراعتی اور غیر زراعتی مزدوری کرنے والوں پر مشتمل ہے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی 80% فی خاندان آمدنی ۵ہزار روپیہ ماہانہ ہے اور دیہی علاقوں میں 38.3%خاندانوں کی دیہی علاقوں میں صرف 2500روپیہ ماہانہ ہے، سروے کے مطابق صرف 3.4% خاندان کی آمدنی 15000روپیہ ماہانہ ہے۔ ماہانہ آمدنی میں سب سے بہتر پوزشن ہگلی اور ہاوڑہ کے مسلمانوں کی ہے۔ ہندوستان میں اوسط فی فرد آمدنی ۹ہزار سے ۱۲ہزار تک ہے۔ اس سے کم آمدنی والے طبقے کو سطح غربت سے نیچے شامل کیا جاتاہے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں نے فی خاندان (جس میں اوسط ۵ تا ۸ افراد ہوتے ہیں) ۲۵۰۰ تا ۵ ہزار روپیہ ہے، یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں پر ایک تنخواہ پر دو افراد ملازمت کرتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے مشترکہ تنخواہ کا عجب رواج پا یا جا تا ہے۔
بعض ریا ستوں میں ہندوستان کے مختلف ریاستوں کے مسلمانوں کی تعلیم و معیشت پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ اردو و مادری زبان رکھنے والے مسلمانوں نے قدرے ترقی کی کہاں جیسے بہار ، مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے بیشتر علاقوں میں مسلما ن بڑے پست اور معاشی طور پر بہت کمزور اور سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، اور جن مسلمانوں کی علاقائی مادری زبانیں ہیں ان میں سب سے غریب ، پسماندہ، بچھڑے ہوئے آسامی اور بنگالی مادری زبان بولنے والے مسلمان ہیں۔ اگر ہم ان کا تقابل
کریں تو گجراتی کو کنی اور بالخصوص ملیالی، ٹامل مسلمانوں کی معاشی پوزشن بنگا لی مسلما نوں سے بہت مضبوط اور ترقی یافتہ نظر آتی ہیں۔ملیالی نوجوان مسلمانوں نے خلیجی ممالک میں خاطرخواہ سخت محنت و مشقت کر کے اپنے خاندان اور کمیونٹی کو معاشی ترقی دینے میں بڑا رول ادا کیا ، اس کے ساتھ چھوٹی تجارت اور صنعتوں میں داخل ہوکر ملک و بیرونے



ملک بڑی کامیابی حاصل کیں، جو ایک زبردست مثال سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ہے، جبکہ کیرالا میں بھی مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تقریبا 27سے 32% تک ہے۔ ملیالی مسلم سوسائٹی ہر سطح پر بڑی منظم و فعال نظر آتی ہے اسکے مقابلے میں آسام اور بنگال کی مسلم سوسائٹی انتہائی غیر منظم ، آپس میں منقسم ، بے حس ما یو س، غر بت و افلا س میں ڈوبی ہوتی اور افراتفری کا شکار نظر آتی ہے۔ اب تو کیرالا کے ملیالی مسلمانوں نے انتہائی اعلی سطح کے عمومی کالجس، میڈیکل ، انجنرنگ کالجس اور یونورسٹیس تک قائم کرچکی ہیں، کیرلا کے ہر ضلع میں مسلمانوں کا معاشی و تعلیمی انقلاب نظر آتا ہے۔ مذہبی اداروں ،اسلامی مدارس ، فلاحی و رفاہی اداروں ، اخبارات و نشریات کا مضبوط نٹ ورک ہے۔ خوشحالی کی وجہ سے ریا ست میں سیاسی طور پر اپنی ایک مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں۔ دنیا ممالک سے مسلمان دانشور قائدین اور اداروں کے سربراہ بطور ماڈل کے کیرلا کا دورہ کرنا چاہتے ہیں، اس کے بر خلاف مغربی منگال کے مسلمانوں کی صورت حال بالکل ابتر اور افسوس ناک ہے۔مغر بی بنگا ل ، آسام ، کیر لا میں اسمبلی انتخا با ت ائندہ ما ہ منقد ہو نے جا رہے ہیں۔
بنگال میں مسلمانوں کی سیاسی صورت حال:
مغربی منگال کی بہت بڑی اقلیت مسلمان ہونے کے باوجود آزادی کے بعد سے سیاسی جماعتوں بالخصوص کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس نے مسلمانوں کو اس بری طرح کچل رکھا کہ مسلمانوں کو غربت سے آزادی دلانے کی نہ ہی منتخب سیا سی نمائندوں نے کوئی کوشش کی اور نہ ہی حکمران جماعت نے ، نہ اس جانب توجہ دینا اپنا فریضہ سمجھا۔مسلمانوں کو سیاسی طور پر طویل عر صے سے غلام بناکر رکھ دیا گیا تھا ، ہمیشہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت نان شبینہ کے لئے ترستی رہی۔ ان میں سیاسی شعور پیدا کرنے کی کسی سیا سی قا ئد نے دیانتداری سے کوشش نہیں کی، شدید غربت و افلاس کی وجہ سے یہ ہمیشہ سیاسی جھوٹے وعدوں اور دھوکہ دہی کا شکار رہے۔ ان میں سیاسی شعور بیدار کیا جاتا اور جمہوریت میں ان کو دئے گئے اپنے حقوق سے کما حقہ واقف کروایا جاتا تو آج مسلمانوں کی یہ دردناک صورت مغربی بنگال میں نہیں ہوتی۔ یہ بھی ایک حقیقت رہی کہ بستی اور علاقائی سطح پر اٹھنے والے سیاسی لیڈروں کے ہمیشہ بڑے پیمانہ پر باضابطہ طور پر طویل عرصہ تک سیاسی قتل ہوتے رہے۔ بار بار سیاسی بیداری کا صفایا کیا جاتا رہا۔ پہلی مرتبہ ۲۰۱۱ کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں ۲۹۰ کی اسبملی میں ۵۷ مسلمان یم ال اے منتخب ہوکر آئے،سیاسی حکمت عملی کے طور پر ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کو پہلی مرتبہ 50 سے زیا دہ نشتیں دیں تھی جس میں سے ۲۵ مسلمان اسمبلی انتخا با ت میں منتخب ہوئے ، اسی طرح کانگریس کے ۱۵، اور CPI(M)کے ۱۳ دیگر ایم ال اے منتخب ہوئے تھے۔ آ زادی کے بعد سے یہ پہلی مرتبہ مسلمانوں کی سیاسی طور پر انتخا با ت میں اتنی بڑی کامیابی حا صل ہو ئی تھی ۔ انتخابات میں ترنمول کانگریس نے مسلمانوں سے جو وعدے کئے تھے اس میں سے 10%کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔سرکاری ملازمتوں میں خاص محکمہ پولس ، اسکول ٹیچرس، کالج لکچررس، انتظامیہ میں بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا۔مسلمان اکثریتی اضلاع کی ترقی کیلئے جو فنڈز کے اعلانات کئے گئے وہ سب غبن کا شکار ہوگئے، مسلمان طلباء و طلبات اور عورتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے اعلانات کاغذ کی حد تک محدودرہ گئے۔
ترنمول کانگریس نے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر 2016-2017کے سالانہ بجٹ میں پہلی مرتبہ اقلیتی بہبود کا بجٹ ۴ گنا بڑھا کر ۲۵۰۰ کروڑ کردیا، اگر بی جے پی بہار کی طرح بنگال میں ایک بڑے انتخابی پروگرام کے تحت انتخابی میدان میں اترتی ہے تو پھر مسلمانوں کے ووٹوں کا سکولر فورس بڑے پیمانہ پر استحصال کرسکتے ہیں مسلما ن ایک با شعور کمیو نٹی کے طو ر پر اور انتخابی مفاہمت کر تے نظر نہیں ارہے ہیں بلکہ مجبوری کے طور پر ترنمول کانگریس یا کانگریس و کمیونسٹ پارٹی کو ووٹ ڈال سکتے ہیں، ترنمول کانگریس مسلمان ووٹوں کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مسلمانو ں نے حکمران جماعت سے اپنے دیرینہ حقوق کی پابجائی کے لئے کوئی خاطر خواہ اجتماعی متحدہ لائحہ عمل ابھی تک تیار نہیں کیا ہے۔مسلم کمیو نٹی میں سیا سی بصر ت کی کمی کی و جہہ سے اسکا بھر پو ر فا ئدہ سیا سی جما عتیں اتھا نے والی ہیں۔ اسمبلی انتخابات کا اپر یل میں اعلان ہوچکاہے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں میں پھر سے یہ جذبہ پیدا کیا جارہا ہے کہ اب کی مرتبہ بھی ہم زیادہ سے زیادہ مسلم ایم ال اے منتخب کریں گے۔ مسلم سیا سی قا ئد ین میں غربت و جہالت کے خاتمہ کاان کے پیش نظر نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ سادہ لوح مسلمان پھر سے ایک مرتبہ مسلمان سیاسی آلہ کاروں کے استحصال کا شکار ہوں گے۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کے لئے ایک زبردست مضبوط مسلمان سیاسی قائد کی ضرورت ہے، جو مسلمانان مغربی بنگال کو ایک دانشمندانہ بلند حکمت عملی کے ساتھ سیاسی راہ پر گامزن کرسکے۔
ملکی سطح پر مسلمانوں کی سیاسی جماعتیں ایسا خا ص وجود نہیں رکھتی ہیں، جو بھی ہیں وہ علاقائی اور مقامی سطح تک محدود ہیں، ایک طویل سیاسی انتخابی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ مسلما نو ں کی تر قی کیلے بلا ک و ڈ سٹر کت کی سطح پر میا کرو و میکرو (Macro and Micro)اسکو پک پلا ننگ کی شد ید ضرورت ہے۔ کیا ریا ست کے بجٹ میں اقلتیوں کے بجت میں اضا فہ کے ذر یعہ سے مسلما نو ں کو پسما ند گی و غر بت اور جہا لت سے نکا لنے میں کا میا بی ملے گی اگر منتخب ہو نے والے ایم ایلیزمیں دیا نت داری سے خد مت کا جذ بہ ہو۔
از:
ناظم الدین فاروقی
M: 9246248205
E: nfarooqui1@hotmail.com
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.